دُرگا درگا بولے آمار،
دوگدھو ہولو کایا،
ایک بار دیگو ماں،
چورونیری چھایا…

’’درگا درگا پکارتے،
جل گئی میری کایا (جسم)
تیرے قدموں میں پناہ حاصل کر لوں
بس اتنی کرو ماں دیا (کرم)‘‘

دیوی درگا کی تعریف میں گاتے ہوئے فنکار، وجے چترکار کی آواز بلند ہوتی جاتی ہے۔ ان کے جیسے دوسرے پٹکار فنکار پہلے خاص گیت لکھتے ہیں، پھر اس گیت پر مبنی تصویریں بناتے ہیں۔ یہ تصویریں ۱۴ فٹ لمبی ہو سکتی ہیں۔ آخر میں ان تصویروں پر مبنی کہانیوں اور گیتوں کی پیشکش ناظرین کے سامنے کی جاتی ہے۔

وجے (۴۱) جھارکھنڈ کے مشرقی سنگھ بھوم ضلع کے امادوبی گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پٹکار مصوری کا فن سنتھالی کہانیوں، قدرتی مناظر، دیہی زندگی اور قدیم داستانوں پر مبنی ہے۔ ’’ہمارا بنیادی موضوع دیہی ثقافت ہے، ہم اپنے ارد گرد جو چیزیں دیکھتے ہیں ان کو ہی اپنی تصویروں میں دکھاتے ہیں،‘‘ تقریباً ۱۰ سال کی عمر سے ہی پٹکار پینٹنگ بنا رہے وجے کہتے ہیں۔ ’’ کرما رقص، بہا رقص، یا رامائن-مہا بھارت کی کوئی تصویر، گاؤں کا کوئی منظر…‘‘ وہ سنتھالی پینٹنگ کے الگ الگ حصوں کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’گھر کے کام کاج کرتی عورتوں کے مناظر، کھیت میں بیلوں کے ساتھ کام کرتے مرد، اور آسمان میں پرواز کرتے پرندے۔‘‘

’’میں نے یہ ہنر اپنے دادا جی سے سیکھا ہے۔ وہ ایک مشہور فنکار تھے، اور لوگ انہیں سننے [تصویریں بناتے اور گیت گاتے] کے لیے کلکتہ [اب کولکاتا] سے آیا کرتے تھے۔‘‘ وجے بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کی کئی نسلیں پٹکار پینٹنگ کا کام کرتی رہی ہیں اور وہ کہتے ہیں، ’’پٹ یُکت آکار، مانے پٹکار، اس لیے پٹکار پینٹنگ آیا [لپیٹے ہوئے کاغذ کے رول کی شکل کو ’پٹ‘ کہتے ہیں، اسی سے اس پینٹنگ کا نام ’پٹکار‘ پڑا ہے]۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: مشرقی سنگھ بھوم ضلع کے امادوبی گاؤں میں واقع مٹی کے اپنے گھر کے باہر ایک پٹکار پینٹنگ پر کام کرتے وجے چترکار۔ دائیں: ان کے جیسے پٹکار فنکار گیت لکھتے ہیں اور پھر ان گیتوں پر مبنی تصویریں بناتے ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

کرما رقص کو نمایاں کرتی پٹکار تصویریں۔ یہ ایک مقامی رقص ہے، جو کرم دیوتا – قسمت کے دیوتا – کی پوجا کے لیے کیا جاتا ہے

پٹکار فن کی ابتدا مغربی بنگال اور جھارکھنڈ میں ہوئی۔ یہ قصہ گوئی اور دلچسپ تصویروں کو باہم اکٹھا کرنے کا ہنر ہے، جو قدیم شاہی مسودوں جنہیں پانڈولیپی (مخطوطہ) کہتے ہیں، سے متاثر ہے۔ ’’اس فن کی قدامت کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیوں کہ یہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ہے، اور اس کا کوئی تحریری ثبوت دستیاب نہیں ہے،‘‘ رانچی سنٹرل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور آدیواسی لوک ادب کے ماہر پرشوتم شرما کہتے ہیں۔

امادوبی گاؤں میں کئی پٹکار آرٹسٹ ہیں۔ ان میں ۷۱ سالہ انل چترکار سب سے بزرگ ہیں۔ ’’میری ہر تصویر میں ایک گیت ہے۔ اور، ہم اس گیت کو گاتے ہیں،‘‘ انل بتاتے ہیں۔ کسی بڑے سنتھالی جشن کے موقع پر کیے گئے کرما رقص کی ایک اسکرول پینٹنگ پاری کو دکھاتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں، ’’جب کوئی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے، تو ہم اسے بناتے ہیں۔ سب سے بنیادی بات گیت لکھنے کے بعد اس گیت پر تصویریں بنانا ہے، اور آخر میں اسے لوگوں کو گا کر سنانا ہے۔‘‘

انل اور وجے – دونوں ان چنندہ مصوروں (پینٹرز) میں سے ہیں جو پٹکار فنکار ہونے کے لیے ضروری موسیقی کی متوقع معلومات رکھتے ہوں۔ انل کہتے ہیں کہ موسیقی میں تمام قسم کے جذبات – خوشی، غم، رومانس کا اظہار کرنے لائق گیت ہوتے ہیں۔ ’’گاؤں دیہات میں ہم دیوتاؤں اور مذہبی کہانیوں پر مبنی تہواروں کی بنیاد پر گیت گاتے ہیں – مثلاً دُرگا، کالی، داتا کرن، نوکا ولاش، منسا منگل جیسے کئی دیوی دیوتاؤں اور اساطیری واقعات پر مبنی گیت،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

انل نے موسیقی اپنے والد سے سیکھی، اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس مصوری سے متعلق گیتوں کا سب سے وسیع خزانہ ہے۔ ’’تہوارں [سنتھالی اور ہندو] کے وقت ہم ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں اپنی تصویریں دکھاتے اور اکتارہ [ایک تار والا ساز] اور ہارمونیم کے ساتھ گیت گاتے ہوئے گھومتے ہیں۔ لوگ ہمیں کچھ پیسے یا اناج دے کر ان تصویروں کو خرید لیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: موسیقی اور فن کی آمیزش

پٹکار فن میں قصہ گوئی کے ساتھ مناظر کی آمیزش کی جاتی ہے۔ یہ قدیم شاہی مسودوں، جنہیں پانڈولیپی (مخطوطہ) کہا جاتا تھا، سے متاثر تھی

حالیہ برسوں میں پٹکار پینٹنگ اپنے اصلی ۱۲ سے ۱۴ فٹ لمبے سائز، جس میں سنتھالوں کی ابتدا و ارتقا سے متعلق لوک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، سے گھٹ کر اے ۴ سائز (ایک فٹ لمبا) تک آ گئی ہے۔ یہ پینٹنگ ۲۰۰ روپے سے لے کر ۲۰۰۰ روپے تک میں فروخت ہوتی ہے۔ ’’ہم بڑی پینٹنگز کو نہیں فروخت کر سکتے، اس لیے ہم چھوٹی پینٹنگ بناتے ہیں۔ اگر کوئی گاہک ہمارے گاؤں آتا ہے، تو ہم ان پینٹنگز کو ۵۰۰-۴۰۰ روپے میں بیچ دیتے ہیں،‘‘ انل کہتے ہیں۔

انل قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد میلوں اور ورکشاپوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس آرٹ کی ایک بین الاقوامی شناخت ہے، لیکن اس کے بعد بھی معاش کے نقطہ نظر سے اس پر منحصر رہنا مشکل ہے۔ ’’موبائل آنے کی وجہ سے موسیقی کی براہ راست پیشکش کو دیکھنے کی روایت کم ہو گئی ہے۔ لوگوں کے پاس موبائل کا متبادل آ جانے سے گانے اور بجانے کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ایک قدیم روایت اب ختم ہو چکی ہے! آج کل گانے بھی کس قسم کے ہیں! ’’پھُلکا پھلکا چُل، اڑی اڑی جائے۔‘‘ ہوا میں لہراتے گیلے بالوں پر لکھے گئے ایک مقبول گانے کی لائنوں کو نقل کرتے ہوئے انل کہتے ہیں۔

یہ بزرگ فنکار بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں امادوبی میں پٹکار پینٹنگ کرنے والے ۴۰ سے بھی زیادہ خاندان ہوتے تھے، لیکن اب گنے چنے گھروں میں ہی یہ فن زندہ رہ گیا ہے۔ ’’میں نے کئی شاگردوں کو یہ ہنر سکھایا، لیکن ان سبھی نے یہ کام چھوڑ دیا، کیوں کہ اس سے انہیں گزر بسر کے لائق آمدنی نہیں ہوتی تھی۔ اب وہ مزدوری کرتے ہیں،‘‘ انل بتاتے ہیں۔ ’’میں نے یہ ہنر اپنے بیٹوں کو بھی سکھایا، لیکن وہ بھی چلے گئے، کیوں کہ اس سے ان کی روزی روٹی نہیں چل پا رہی تھی۔‘‘ ان کے بڑے بیٹے جمشید پور میں راج مستری کا کام کرتے ہیں، جب کہ دوسرے بیٹے مزدوری کرتے ہیں۔ انل اور ان کی بیوی گاؤں میں اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور کچھ بکریاں اور مرغیاں پالتے ہیں؛ ان کے گھر کے باہر پنجرے میں ایک طوطا ٹنگا ہوا ہے۔

سال ۲۰۱۳ میں جھارکھنڈ حکومت نے امادوبی گاؤں کو ایک سیاحتی مرکز بنا دیا، لیکن اس کے بعد بھی بہت کم سیاح اس کی جانب متوجہ ہوئے۔ ’’اگر کوئی سیاح یا صاحب [سرکاری افسر] یہاں آتے ہیں، تو ہم ان کے استقبال میں گیت گاتے ہیں۔ خوش ہو کر وہ ہمیں کچھ پیسے دے جاتے ہیں۔ پچھلے سال میں نے اپنی صرف دو پینٹنگ بیچی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

امادوبی گاؤں کے سب سے بزرگ پٹکار فنکار، انل چترکار اپنی پینٹنگ کے ساتھ

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بندھن پَرو (تہوار) اور اس سے وابستہ جھارکھنڈ کی آدیواسی برادریوں کی جھلک دکھاتی پٹکار پینٹنگ

کرما پوجا ، بندھن پَرو جیسے سنتھالوں کے تہواروں کے ساتھ ساتھ مقامی ہندوؤں کے تہواروں اور میلوں میں فنکار آس پاس کے گاؤوں میں اپنی پینٹنگز بیچتے ہیں۔ ’’پہلے ہم گاؤوں میں تصویروں کو بیچنے جایا کرتے تھے۔ ہم بہت دور دور بھی چلے جاتے تھے، مثلاً بنگال، اوڈیشہ اور چھتیس گڑھ جیسی جگہوں پر،‘‘ انل نے بتایا۔

*****

وجے ہمیں پٹکار آرٹ کے پیچھے کا پروسیس دکھاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ پتھر کی ایک چھوٹی سی تختی پر تھوڑا پانی ڈالتے ہیں اور پتھر کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے تب تک رگڑتے ہیں جب تک اس سے گاڑھا لال رنگ نہ نکلنے لگے۔ اس کے بعد ایک چھوٹے سے پینٹ برش سے وہ تصویریں بنانا شروع کرتے ہیں۔

پٹکار مصوری میں جو رنگ استعمال ہوتے ہیں انہیں ندی کے کنارے پائے جانے والے پتھروں، پھولوں اور پتیوں سے نکالا جاتا ہے۔ رنگوں کے لیے معقول پتھروں کی تلاش سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ’’ہمیں پہاڑوں پر یا ندی کے کنارے جانا پڑتا ہے۔ کئی بار چونے کا پتھر تلاش کرنے میں تین چار دن لگ جاتے ہیں،‘‘ وجے بتاتے ہیں۔

مصور یا پینٹر پیلے رنگ کے لیے ہلدی، ہرے رنگ کے لیے پھلیاں یا مرچیں، اور بینگنی رنگ کے لیے لینٹانا کیمارا کے پھل کا استعمال کرتے ہیں۔ کالا رنگ کیروسن لیمپ کی سیاہی سے، اور لال، سفید اور گیروئے رنگ پتھروں سے نکالے جاتے ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: پٹکار پینٹنگ میں کام آنے والے رنگ ندی کے کنارے ملنے والے پتھروں، اور پھولوں اور پتیوں سے بنائے جاتے ہیں۔ دائیں: اپنے گھر کے باہر پینٹنگ کرتے وجے چترکار

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: اپنے گھر میں چائے بناتے وجے چترکار۔ دائیں: امادوبی گاؤں کا ایک روایتی سنتھالی گھر، جو مٹی سے بنا ہے

حالانکہ، تصویروں کو کپڑے یا کاغذ پر بنایا جا سکتا ہے، لیکن ان دنوں زیادہ تر فنکار کاغذ کا استعمال کرتے ہیں جو ۷۰ کلومیٹر دور واقع جمشید پور سے خریدا جاتا ہے۔ ’’ایک شیٹ ۷۰ سے ۱۲۰ روپے میں آتی ہے، اور ہم ان پر چار چھوٹی پینٹنگز آرام سے بنا سکتے ہیں،‘‘ وجے کہتے ہیں۔

تصویروں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے قدرتی رنگوں میں نیم (اجاڈیریکٹا انڈیکا) یا ببول (اکاسیا نیلوٹیکا) کی گوند ملا دی جاتی ہے۔ ’’اس طرح کاغذ کیڑوں کے حملوں سے بچا رہتا ہے، اور پینٹنگ لمبے وقت تک محفوظ رہتی ہے،‘‘ قدرتی رنگوں کے مسئلہ کے بارے میں بتاتے ہوئے وجے کہتے ہیں۔

*****

آٹھ سال پہلے انل کی دونوں آنکھوں میں موتیابین ہو گیا تھا۔ چونکہ، ان کی آنکھوں کی روشنی دھندلی ہو گئی تھی، اس لیے انہوں نے پینٹنگ بند کر دی۔ ’’میں ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتا ہوں۔ میں خاکہ بنا سکتا ہوں، گیت سنا سکتا ہوں، لیکن تصویروں میں رنگ نہیں بھر سکتا،‘‘ اپنی ایک پینٹنگ کو دکھاتے ہوئے وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان پینٹنگز میں دو پینٹروں کے نام ہیں – ایک انل کا نام ہے جنہوں نے اس کا خاکہ تیار کیا ہے، اور دوسرا نام ان کے اس شاگرد کا ہے جس نے تصویر میں رنگ بھرا ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

ماہر پٹکار پینٹر انجنا پٹکار، امادوبی کی چند خواتین فنکاروں میں سے ایک ہیں، لیکن اب انہوں نے پینٹنگ کرنا چھوڑ دیا ہے

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

سنتھالی زندگی کی جھلک پیش کرتی پٹکار پینٹنگز۔ ’ہمارا بنیادی موضوع دیہی ثقافت ہے؛ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو ہی ہم اپنی تصویروں میں دکھاتے ہیں،‘ وجے بتاتے ہیں

اجنا پٹکار (۳۶) پینٹر ہیں، لیکن وہ کہتی ہیں، ’’اب میں نے یہ کام کرنا بند کر دیا ہے۔ میرے شوہر ناراض ہو جاتے ہیں کہ گھر کے کام کاج نمٹانے کے بعد میں پینٹنگ کر کے خود کو مزید کیوں تھکاتی ہوں۔ یہ واقعی محنت طلب کام ہے، اور اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو یہ سب کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ انجنا کے پاس ۵۰ پینٹنگز ہیں، لیکن وہ انہیں فروخت نہیں کر پا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بچوں کو اس ہنر کو سیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

انجنا کی طرح ۲۴ سالہ گنیش گاین بھی کبھی پٹکار پینٹنگ میں ماہر ہوا کرتے تھے، لیکن اب وہ گاؤں میں ایک پنساری کی دکان چلاتے ہیں اور کبھی کبھی مزدوری بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے پچھلے سال اپنی تین پینٹنگز بیچیں۔ اگر ہم صرف اسی آمدنی پر منحصر رہے، تو ہم اپنی فیملی کیسے چلائیں گے؟‘‘

’’نئی نسل یہ نہیں جانتی ہے کہ گیت کیسے لکھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی گیت گانے اور کہانی سنانے کا ہنر سیکھے گا، تبھی پٹکار آرٹ زندہ بچے گا، ورنہ یہ ختم ہو جائے گا،‘‘ انل کہتے ہیں۔

سیتارام باسکی اور رونت ہیمبرم کی مدد سے، جوشوا بودھی نیتر نے اس رپورٹ میں شامل پٹکار گیتوں کا ترجمہ کیا ہے۔

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: قمر صدیقی

Ashwini Kumar Shukla

Ashwini Kumar Shukla is a freelance journalist based in Jharkhand and a graduate of the Indian Institute of Mass Communication (2018-2019), New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sreya Urs

Sreya Urs is an independent writer and editor based in Bangalore. She has over 30 years of experience in print and television media.

Other stories by Sreya Urs
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique