بیلڈانگا کے اتر پاڑہ علاقے میں اپنے گھر کی چھت پر بات کرتے ہوئے کوہِ نور بیگم ہم سے کہتی ہیں، ’’میرے ابو ایک دہاڑی مزدور تھے، لیکن انہیں مچھلی پکڑنا بہت پسند تھا۔ وہ کسی طرح دن کے کھانے کے لیے ایک کلو چاول کے پیسے کا انتظام کر لیتے تھے، اور پھر…نکل جاتے تھے! میری امّی کو باقی چیزیں سنبھالنی پڑتی تھیں۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’’اور سوچو، میری امی کو اس ایک کلو چاول سے چار بچوں، ہماری دادی، میرے والد، ایک چچی اور خود کا پیٹ بھرنا ہوتا تھا۔‘‘ تھوڑی دیر رک کر وہ آگے کہتی ہیں، ’’اس کے علاوہ، ابو ان سے مچھلی کے چارے کے لیے بھی چاول مانگ لیتے تھے۔ ہمیں ان کی عقل پر حیرانی ہوتی تھی!‘‘

تقریباً ۵۵ سالہ کوہ نور آپا [بڑی بہن] بنگال کے مرشد آباد ضلع کے جانکی نگر پرائمری اسکول میں مڈ ڈے میل (دوپہر کا کھانا) بناتی ہیں۔ اپنے خالی وقت میں وہ بیڑی بناتی ہیں اور اس کام کو کر رہی دیگر خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلاتی ہیں۔ مرشد آباد میں، بہت ہی غریب گھروں سے آنے والی عورتیں بیڑی بنانے کا کام کرتی ہیں، جو جسمانی طور پر توڑ کر رکھ دینے والا کام ہے۔ کم عمر سے ہی تمباکو کے مسلسل رابطہ میں رہنے کی وجہ سے ان کی صحت پر بھی برے اثرات کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ پڑھیں: خواتین کی صحت پر بھاری پڑ رہا ہے بیڑی بنانا

سال ۲۰۲۱ میں دسمبر کی ایک صبح کو، کوہ نور آپا بیڑی مزدوروں کے لیے چلائی جا رہی ایک مہم میں حصہ لینے کے دوران اس رپورٹر سے ملیں۔ بعد میں، فرصت ملنے کے بعد کوہ نور آپا نے اپنے بچپن کے بارے میں بات کی اور اپنی خود کی تخلیق بھی سنائی، جو اس کے استحصال بھرے حالات پر لکھا ہوا گیت ہے۔

کوہ نور آپا بتاتی ہیں کہ ان کے بچپن میں فیملی کی مالی حالت بہت خراب تھی، جس کی وجہ سے ان کی فیملی کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بچی کے لیے یہ ناقابل برداشت حالت تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں صرف نو سال کی تھی۔ ایک صبح، روز کی ہماہمی کے دوران، گھر میں میں نے اپنی امی کو کوئلے، گوبر کے کنڈے اور لکڑی سے مٹی کا چولہا بناتے وقت سسکتے ہوئے دیکھا۔ ان کے پاس کھانے میں پکانے کے لیے کوئی اناج نہیں تھا۔‘‘

بائیں: کوہ نور بیگم اپنی ماں کے ساتھ، جن کی جدوجہد نے انہیں سماج میں اپنے وجود کی لڑائی لڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ دائیں: دسمبر ۲۰۲۲ میں کوہ نور، مرشد آباد کے برہام پور میں ایک ریلی کی قیادت کر رہی ہیں۔ تصویر: نسیمہ خاتون

نو سال کی بچی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ فخر سے یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’میں ایک بڑے کوئلہ ڈپو کے مالک کی بیوی سے ملنے کے لیے بھاگی اور ان سے پوچھا، ’کاکی ماں آما کے ایک مون کورے کوئلہ دیبے روج؟‘ [آنٹی، کیا آپ مجھے ہر دن ایک من کوئلہ دے سکتی ہیں؟]۔ تھوڑی منتوں کے بعد وہ مان گئیں، اور میں نے ان کے ڈپو سے رکشہ کے ذریعے اپنے گھر کوئلہ لانا شروع کر دیا۔ اس کے کرایے کے طور پر ۲۰ پیسے دینا ہوتا تھا۔‘‘

جب تک وہ ۱۴ سال کی ہوئیں، ان کی زندگی اسی طرح چلتی رہی۔ پھر کوہ نور اپنے اتر پاڑہ گاؤں اور ارد گرد کے علاقوں میں اسکریپ کوئلہ (کچرے سے بننے والا کوئلہ) بیچنے لگی تھیں؛ وہ اپنے چھوٹے کندھوں پر ایک بار میں ۲۰ کلو تک کوئلہ اٹھا لیتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بھلے ہی میں بہت کم کماتی تھی، لیکن اس سے میری فیملی کو کھانا مل جاتا تھا۔‘‘

فیملی کی مدد کرکے انہیں خوشی اور راحت تو محسوس ہو رہی تھی، لیکن انہیں محسوس ہوتا رہتا تھا جیسے وہ زندگی سے شکست کھا رہی ہوں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سڑک پر کوئلہ بیچتے ہوئے، میں لڑکیوں کو اسکول جاتے اور عورتوں کو بیگ لیے کالجوں اور دفتروں کی طرف جاتے دیکھتی تھی۔ مجھے خود پر ترس آتا تھا۔‘‘ ان کی آواز بھاری ہونے لگی تھی، لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے بھی کندھے پر بیگ ٹانگ کر کہیں جانا تھا…‘‘

اس وقت، ان کے ایک چچیرے بھائی نے میونسپلٹی کے ذریعے عورتوں کے لیے چلائے جا رہے مقامی سیلف ہیلپ گروپ سے کوہ نور کا تعارف کرایا۔ ’’الگ الگ گھروں کو کوئلہ بیچتے وقت، میں بہت سی عورتوں سے ملتی تھی۔ میں ان کی مشکلوں کو جانتی تھی۔ میں نے اس بات پر زور دیا کہ میونسپلٹی مجھے منتظمین میں شامل کر لے۔‘‘

حالانکہ، ان کے چچیرے بھائی نے ان کی اس تجویز پر شک ظاہر کیا۔ سوال یہ اٹھا کہ کوہ نور نے باقاعدہ اسکولی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، ایسے میں کہا گیا کہ وہ اس کام کے لیے اہلیت نہیں رکھتیں، کیوں کہ اکاؤنٹ کا حساب کتاب رکھنا بھی کام کا حصہ تھا۔

وہ کہتی ہیں، ’’حساب کتاب میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیوں کہ میں ان میں بہت اچھی ہوں۔ اسکریپ کوئلہ بیچنے کے دوران میں نے یہ سیکھ لیا تھا۔‘‘ کوہ نور نے انہیں یقین دلایا کہ وہ غلطی نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے بس ایک درخواست کی کہ ڈائری میں لکھتے وقت میں اپنے چچیرے بھائی کی مدد لوں گی۔ ’’باقی کام میں سنبھال لوں گی۔‘‘

Kohinoor aapa interacting with beedi workers in her home.
PHOTO • Smita Khator
With beedi workers on the terrace of her home in Uttarpara village
PHOTO • Smita Khator

بائیں: کوہ نور آپا اپنے گھر میں بیڑی مزدوروں سے بات چیت کر رہی ہیں۔ دائیں: اتر پاڑہ گاؤں میں اپنے گھر کی چھت پر وہ بیڑی مزدوروں کے ساتھ ہیں

اور انہوں نے کام سنبھال بھی لیا۔ مقامی سیلف ہیلپ گروپ کے لیے کام کرنے کے دوران، کوہ نور کو زیادہ تر عورتوں کو اچھی طرح جاننے کا موقع ملا، جن میں سے بہت سی عورتیں بیڑی بنانے کا کام کرتی تھیں۔ وہاں انہوں نے بچت کرنے، فنڈ بنانے، اور اس انتظام کے تحت اس سے ادھار لینے اور چکانے کا طریقہ بھی سیکھا۔

حالانکہ، پیسہ کمانا کوہ نور کے لیے ہمیشہ مشکل بنا رہا۔ وہ بتاتی ہیں کہ زمینی سطح پر کیا گیا کام ’’قیمتی تجربہ‘‘ بن گیا، کیوں کہ ’’میں سیاسی طور پر بیدار ہو رہی تھی۔ اگر مجھے لگتا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، تو میں ہمیشہ لوگوں سے اس کے بارے میں بات کرتی تھی۔ میں نے ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے۔‘‘

حالانکہ، یہ بات ان کی فیملی اور رشتہ داروں کو راس نہیں آئی۔ ’’اس لیے، انہوں نے میری شادی کر دی۔‘‘ محض ۱۶ سال کی عمر میں ان کی شادی جمال الدین شیخ سے ہوئی۔ اس کے بعد ان کے تین بچے ہوئے۔

خوش قسمتی سے، شادی کے بعد کوہ نور آپا کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی: ’’میں اپنے آس پاس کی چیزوں پر نظر بنائے رکھی۔ میری جیسی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی زمینی تنظیموں کو بہت پسند کرتی تھی اور دھیرے دھیرے ان کے ساتھ میری وابستگی بڑھتی رہی۔‘‘ وہیں دوسری طرف، جمال الدین پلاسٹک اور کچرا بیننے کا کام کرتے ہیں۔ کوہ نور، اسکول کے کام اور مرشد آباد ضلع بیڑی مزدور اور پیکرس یونین کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں، جہاں وہ بیڑی بنانے والی مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’صرف اتوار کی صبح مجھے تھوڑا سا وقت ملتا ہے۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ ایک بوتل سے اپنی ہتھیلی پر ناریل تیل نکالتی ہیں، اپنے گھنے بالوں پر لگاتی ہیں، اور پھر وہ آرام سے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگتی ہیں۔

بالوں میں تیل لگانے کے بعد، وہ دوپٹے سے اپنے سر کو ڈھانپ لیتی ہیں اور سامنے رکھے شیشہ میں دیکھتی ہیں، ’’مجھے آج گانا گانے کا من کر رہا ہے… ایکٹا بیڑی بندھائی ایر گان شونائی [بیڑی باندھنے کے کام کے بارے میں ایک گانا سناتی ہوں…]۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: کوہ نور آپا کی آواز میں محنت کا گیت

বাংলা

একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

শ্রমিকরা দল গুছিয়ে
শ্রমিকরা দল গুছিয়ে
মিনশির কাছে বিড়ির পাতা আনতে যাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

পাতাটা আনার পরে
পাতাটা আনার পরে
কাটার পর্বে যাই রে যাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

বিড়িটা কাটার পরে
পাতাটা কাটার পরে
বাঁধার পর্বে যাই রে যাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
ওকি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

বিড়িটা বাঁধার পরে
বিড়িটা বাঁধার পরে
গাড্ডির পর্বে যাই রে যাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

গাড্ডিটা করার পরে
গাড্ডিটা করার পরে
ঝুড়ি সাজাই রে সাজাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

ঝুড়িটা সাজার পরে
ঝুড়িটা সাজার পরে
মিনশির কাছে দিতে যাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

মিনশির কাছে লিয়ে যেয়ে
মিনশির কাছে লিয়ে যেয়ে
গুনতি লাগাই রে লাগাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

বিড়িটা গোনার পরে
বিড়িটা গোনার পরে
ডাইরি সারাই রে সারাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই
একি ভাই রে ভাই
আমরা বিড়ির গান গাই

ডাইরিটা সারার পরে
ডাইরিটা সারার পরে
দুশো চুয়ান্ন টাকা মজুরি চাই
একি ভাই রে ভাই
দুশো চুয়ান্ন টাকা চাই
একি ভাই রে ভাই
দুশো চুয়ান্ন টাকা চাই
একি মিনশি ভাই
দুশো চুয়ান্ন টাকা চাই।

اردو

سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

مزدور متحد ہو کر
مزدور مل کر
منشی کے گھر جاتے ہیں
بیڑی کے پتّے لاتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

پتّے ہم جو لائے
پتے ہم جو لائے
وقت ہوا کہ ان کو اب ہم کاٹیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

ایک بار جو بیڑی کٹ جاتی ہے
ایک بار جو پاتی کٹ جاتی ہے
بیڑی بندھنے کو تیار ہو جاتی ہے۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

بیڑی بندھ جانے کے بعد
بیڑی بندھ جانے کے بعد
بنڈل کا ہم کام شروع کرتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

ایک بار جو بنڈل بن جاتے ہیں
ایک بار جو بنڈل بن جاتے ہیں
ٹوکری کی ہم پیکنگ کر پاتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

ٹوکریاں اب پیک ہو گئیں
ٹوکریاں اب پیک ہو گئیں
ہم منشی کے پاس انہیں لے جاتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں

منشی کے ڈیرے پر جا کر
منشی کے ڈیرے پر جا کر
آخری بار اسے ہم گنتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

گنتی جو اب ختم ہو گئی
گنتی جو اب ختم ہو گئی
ڈائری کے صفحوں پر ہم لکھتے ہیں۔
سنو رے بھائی
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں
بیڑی کا یہ گانا
سنو ہمیں، ہم گاتے ہیں۔

ڈائری کے صفحات پر سب لکھ جانے پر
ڈائری کے صفحات پر سب لکھ جانے پر
دہاڑی ہماری دے دو، اور تم التجا سن لو۔
سنو رے بھائی
دہاڑی کی خاطر، ہم التجا کرتے ہیں۔
دو سو روپے کے ساتھ، اور چوّن روپے
سن رے منشی، ہم کو اتنے روپے دے دو۔
دو سو چوّن روپے، ہماری مزدوری ہے،
سن رے منشی، تم ہماری بات سنو۔

گیت کا کریڈٹ:

بنگالی گیت: کوہ نور بیگم

مترجم: محمد قمر تبریز

Smita Khator

Smita Khator is the Chief Translations Editor, PARIBhasha, the Indian languages programme of People's Archive of Rural India, (PARI). Translation, language and archives have been her areas of work. She writes on women's issues and labour.

Other stories by Smita Khator
Editor : Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Video Editor : Shreya Katyayini

Shreya Katyayini is a filmmaker and Senior Video Editor at the People's Archive of Rural India. She also illustrates for PARI.

Other stories by Shreya Katyayini
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique